کچھ عرصہ قبل سونامی طوفان نے انڈونیشیا، سری لنکا اور ہندوستان وغیرہ میں جو قیامت خیز تباہی مچائی ، اس کے نتیجے میں لاتعداد لوگ لقمہ اجل بنے۔ ان سب کی نہ صرف تفصیلات بلکہ جزئیات تک کا ہم میں سے اکثر کو علم ہے۔ مسلسل دو ماہ تک اس سلسلہ میں میڈیا میں جو خبریں شائع ہو رہی تھیں اس میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ بھی تھا۔ انڈومان نکوبار کے جزیروں کو جب اس طوفان بلا خیز نے گھیر لیا تو وہاں موجود لوگ اونچی پہاڑیوں اور ٹیلوں پر جان بچانے کے لئے بھاگے، ان میں ایک جواں سالہ ماں بھی تھی جو اپنے دونوں ہاتھوں میں دو معصوم بچوں کو تھامے ہوئے تھی۔ گھبراہٹ میں ان بچوں کے بوجھ سے اس سے پہاڑ پر پناہ لینے کے لئے چڑھا نہیں جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ بھاگنے والے اس کے پڑوسیوں نے بارہا اس سے کہا کہ وہ براہ کرم ایک بچے کو نیچے چھوڑ دے اور دوسرے کو ٹھیک سے تھام کر اوپر چڑھنے کی کوشش کرے تاکہ دونوں بچوں کو بچانے کی ناکام کوشش کی بجائے خود اس کا اور ایک بچہ کا بچنا یقینی ہو جائے لیکن ماں کی محبت کے لئے آخری دم تک یہ گوارا نہیں تھا کہ اپنے ایک معصوم جگر گوشہ کو موت کے منہ میں جانے دے اور خود اپنی جان بچائے۔ بالآخر پیچھے سے ایک بڑی لہر نے ان تینوں کو دبوچ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ماں اپنے ان دونوں لخت جگروں کے ساتھ وہاں پہنچ گئی جہاں سے ان کو کبھی واپس نہیں آنا تھا۔ ہمیں اس واقعہ میں جو بات بین السطور نظر آتی ہے وہ ہر ماں کا وہ بے پناہ پیار اور ممتا کا وہ لاڈ ہے جو دنیا میں اربوں روپے کی دولت سے خریدا نہیں جا سکتا ۔زندگی میں بیوی کی وفات ہوئی تو دوسری ملی، کسی حادثہ میں ایک بچہ لقمہ اجل بنا تو اللہ نے دوسرا عنایت کیا۔ دولت ہاتھ سے آج گئی کل اس سے دوگنی ملی۔ غرض یہ کہ اللہ نے ہر چیز کا بدل رکھا، سوائے ماں باپ کے۔ بستر مرگ پر ہی سہی ان کا ناتواں وبوڑھا وجود لاکھوں لوگوں کے لئے سکون قلب کا سامان بنا۔ ان کے پیار بھرے ایک جملے نے سالوں سے چلے آرہے تنائو کو ختم کر دیا۔ ان کی محبت بھری ایک مسکراہٹ نے مدتوں کی ذہنی الجھنوں کا ازالہ کر دیا۔
یہی حال کچھ والد کا بھی ہے، بالفرض باپ اور بیٹا دونوں بھوک سے نڈھال ہوں اور اس وقت ان کو صرف روٹی کا چھوٹا ٹکڑا میسر آجائے تو شفیق باپ یہ ٹکڑا اپنے بچہ کو کھلا کر اس کی جان بچائے گا اور خود بھوک سے اپنی جان دینا گوارا کرے گا۔ غرض یہ کہ ماں باپ کی شکل میں ان دونوں نعمتوں کا اس فانی دنیا میں کوئی بدل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے لئے انہوں نے کیا کیا تکالیف برداشت کیں، اس کی ایک جھلک دیکھئے۔ دنیا کی ہر بیماری ایسی ہے کہ اس سے صحت یاب ہوناممکن اور آسان ہے۔ اسی لئے کسی مرض کو مرض الموت نہیں کہا جاتا۔ اسی پس منظر میں ہماری شریعت میں کسی بھی بیماری میں کی جانے والی وصیت کا اعتبار ہے اور مرنے کے بعد اس پر عمل کرنا وارثوں کے لئے ضروری ہے لیکن اسی کے ساتھ فقہ کی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ کسی بھی عورت کے لئے ولادت کے موقع پر اٹھنے والے دردزہ کا شمار مرض الموت میں ہوتا ہے کیونکہ اس وقت کی اس کی اس تکلیف کا دنیا کی کسی تکلیف سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لئے دردزہ کے موقع پر کی جانے والی وصیت کا اعتبار نہیں اور وہ نافذ العمل بھی نہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی ماں نے ہمارے لئے بھی اس مرض الموت (دردزہ )کا سامنا کیا ہے اور ہماری خاطر دنیا کی اس درد ناک اذیت کا مقابلہ کیا ہے۔ اسی طرح ہم میں سے ہر ایک کے والد نے ہماری روزی روٹی اور دکھ سکھ کے لئے دنیا جہاں کے مسائل کا سامنا کیا ہے لیکن اس کے مقابلہ میں ہم نے اُن کے ِان احسانات کا کیا بدلہ دیا ہے۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیا آج تک ہم نے ان کا نام لے کر اللہ سے ان کے حق میں سوال کیا ہے؟ ان کی بھلائی ومغفرت کی اللہ سے دعا کی ہے؟ ان کی بخشش کے لئے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہیں، ہم میں سے بہتوں کا جواب یقینا نفی میں ہے، ساری زندگی ہم اگر ان دونوں کی خدمت میں گزارتے تو بھی ان کے کسی ادنیٰ احسان کی برابری نہیں ہو سکتی ہے، قرآن مجید میں ان سے متعلق ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ عمر کے آخری مرحلہ میں ان سے سرزد ہونے والی کم عقلی کی باتوں اور نازنخروں پر اف تک نہ کریں۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب تک وہ زندہ ہیں ان کی برابر خدمت کرتے رہیں اور جب ان کا انتقال ہو جائے تو ان کے لئے مغفرت کی دعا کریں، اس سلسلہ میں اللہ نے ان کے حق میں مانگنے کا طریقہ بھی ہمیں سکھایا ہے کہ تم ان کے لئے مجھ سے اس طرح مانگو کہ اے میرے رب جس طرح ان دونوں نے میرے بچپنے میں میری تربیت کی اسی طرح تو ان پر رحم فرما۔”رَبِّ ارحَمھُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیراً“
یہ دعا ایسی جامع وموثر ہے کہ ان کے حق میں ان کی زندگی میںبھی کی جائے اور مرنے کے بعد بھی۔ ان ہی قرآنی الفاظ میں اور پورے استحضار کے ساتھ! اگر ہمارا معمول اپنے ان شفیق والدین کے لئے اللہ سے مانگنے کا اب تک نہیں تھا تو آج سے ہم اس قرآنی دعا کو اپنی مناجات ودعائوں کا لازمی جز بنائیں۔ اگر وہ بقید حیات ہیں تو ان کے لئے درازی عمر وخاتمہ بالخیر کی دعااور اگر وفات پا چکے ہیں تو مغفرت وبخشش کی دعاکریں ۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 773
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں